چناب نگر

سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز (سی فوٹی سیون نیوز) سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز(سی فوٹی سیون نیوز )سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز

Monday 23 July 2018

نون لیگ کے ناقابلِ شکست اُمیدوار الیاس چنیوٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون؟

نون لیگ کے ناقابلِ شکست اُمیدوار الیاس چنیوٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون؟
چنیوٹ سٹی کے صوبائی حلقہ پی پی 94 (سابقہ پی پی 73) سے مجموعی طور پر 15 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں۔اس حلقے سے گزشتہ دو انتخابات میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی بطور آزاد اُمیدوار اور مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر کامیاب ہو چُکے ہیں۔ان سے قبل ان کی والد مولانا منظور چنیوٹی بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑتے اور جیتتے رہے ہیں۔ اس گھرانے کی وجہ شہرت ختم نبوت کے حوالے سے اسمبلی میں آواز اٹھانا اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوانا ہے۔ماضی میں مولانا الیاس اور اُن کے والد اسی نعرے پر مذہبی ووٹ سمیٹ کر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔آئندہ الیکشن میں بھی مولانا الیاس چنیوٹی ہی مسلم لیگ نواز کے متوقع ٹکٹ ہولڈر ہوں گے لیکن اُن کے مقابلے میں اس بار نون لیگ کے ضلعی صدر آفتاب احمد ہرل نے بھی اسی حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دئیے ہیں جو اس حلقے میں مسلم لیگ کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کا ثبوت ہے۔یاد رہے گزشتہ الیکشن میں مولانا الیاس چنیوٹی نے عوام سے چنیوٹ تا فیصل آباد روڈ کو ون وے کروانے کا انتخابی وعدہ کیا تھا مگر وہ اسے وفا نہیں کر پائے اور اسی وجہ سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ بھی ناراض رہے۔یہی وجہ تھی کہ گزشتہ مہینوں میں شہباز شریف کا دورہِ چنیوٹ مسلسل تاخیر کا شکار بھی ہوتا رہا اور جب بالآخر شہباز شریف ڈی ایچ کیو کا دورہ کرنے کے لیے چنیوٹ پہنچے تو انھوں نے آئندہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں روڈ کی تعمیر ترجیحی بنیادوں پر کروانے کا وعدہ کیا۔سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ نون اپنا ٹکٹ آفتاب ہرل کی بجائے مولانا الیاس چنیوٹی کو ہی دے گی۔پی پی 94 میں مولانا الیاس چنیوٹی کے مد مقابل قابل ذکر امیدواروں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید کلیم امیر، مسلم لیگ نواز کے ضلعی صدر آفتاب احمد ہرل اور پی ٹی آئی کے علی حسن رضا قاضی شامل ہیں۔لیکن یہاں اصل مقابلہ مولانا الیاس چنیوٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے متوقع ٹکٹ ہولڈر سید کلیم امیر کے درمیان ہوتا نظر آ رہا ہے تاہم تحریکِ انصاف کا اُمیدوار بھی کسی سے کمزور نہیں ہے۔مسلم لیگ نون کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے سے مولانا الیاس چنیوٹی کی جیت خطرے میں پڑ سکتی ہے لیکن زیادہ امکان یہی ہے وہ آفتاب اپنی جماعت کے اُمیدوار کی حمایت کریں گے۔حلقے کے لوگ چونکہ پہلے ہی فیصل آباد روڈ کے معاملے پر مولانا کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کر چکے ہیں لہذا یہ امر پیپلز پارٹی کی اُمیدوار کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے سید کلیم امیر گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت بری طرح متاثر ہونے کے باوجود غیر متوقع طور پر تقریباً ساڑھے 18 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب رہے تھے۔جبکہ تحریکِ انصاف کے اُمیدوار 2002ء میں پی پی پی کے پلیٹ فارم رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے علاوہ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں بھی مولانا الیاس چنیوٹی کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر آتے رہے ہیں۔کلیم امیر پی پی پی کے ڈویژنل صدر و سابق ایم پی اے سید حسن مرتضٰی کے گہرے دوست بھی ہیں لہذا انہیں حسن مرتضٰی کی حمایت بھی حاصل ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے باعث حسن مرتضٰی کے حلقے کے جو علاقے اب شہری حلقے میں شامل ہوئے ہیں وہاں سے سید کلیم امیر بھاری اکثریت میں ووٹ لے سکتے ہیں۔دوسری جانب فرنیچر کے کاروبار سے منسلک فخری خاندان (جمیل فخری اور انس فخری) نے بھی الیکشن میں شمولیت کا اعلان کر رکھا ہے اور مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تاہم اس خاندان کو ٹکٹ ملنے اور ان کی جیت کے امکانات بہت کم ہیں۔سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ صورتحال میں کسی بھی اُمیدوار کی جیت کے بارے میں کوئی حتمی پیشن گوئی کرنا قبل از وقت ہو گا تاہم یہ بات طے پے کہ اس مرتبہ مولانا الیاس کو کامیابی کے لیے ماضی کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنا ہوگی۔

پاکستان کے احمدی ووٹ کیوں نہیں ڈالتے؟

صنعتوں کے شہر فیصل آباد کی کارپٹڈ اور کُھلی سڑکوں سے ہوتی ہوئی ویگن کئی برسوں سے بدحالی کا شکار چنیوٹ روڈ پر چڑھی تو اس کے دونوں اطراف میں سیاسی جماعتوں اور ان کے اُمیدواروں کے بینرز کی بھرمار تھی۔ویگن میں بیٹھے مسافروں میں سے بھی کوئی سابق وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کی سیاسی لڑائی پر بحث کر رہا تھا تو کسی نے مولانا الیاس چنیوٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کو اپنا موضوع بنا رکھا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ سڑک سمیت لگ بھگ تمام سواریاں آئندہ عام انتخابات کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں۔ یہ شاید اسی انتخابی رنگینی کا نیتجہ تھا کہ ویگن چنیوٹ کے ختمِ نبوت چوک پہنچ گئی اور بظاہر انتہائی کٹھن سفر کے کٹنے کا احساس تک نہ ہوا۔ اس چوک میں ہر طرف لگے سیاسی جماعتوں کے بینرز اور فلیکس بھی الیکشن کی آمد کی نوید سُنا رہے تھے۔ یہاں سے جماعتِ احمدیہ کا صدر مقام چناب نگر (ربوہ) محض آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔سرگودھا روڈ پر واقع اس چھوٹے سے قصبے کو دریائے چناب کے علاوہ امتیازی قوانین، نفرت اور عدم مساوات کا سمندر بھی چنیوٹ شہر سے الگ کرتا ہے۔ ہر طرف الیکشن کی گہما گہمی کے برعکس اس قصبے کی ویرانی اور خاموشی ہر لمحہ یہاں کے باسیوں کے درد کی داستان سُناتی ہے۔ یہاں کے احمدی ووٹروں نے 1977ء کے عام انتخابات کے بعد سے آج تک ووٹ ڈالنے کا حق استعمال نہیں کیا مگر آخر ایسا کیوں ہے؟قصبے کی ایک دوکان کے باہر لکڑی کے بینچ پر بیٹھے بزرگ مرزا منصور کے مطابق جب تک انہیں باقی پاکستانی شہریوں کی طرح مکمل حقوق نہیں ملتے تب تک وہ ووٹ کا حق استعمال نہیں کریں گے۔اُن کے بقول "1947 سے لے کر 1977 تک ہم ووٹ کاسٹ کرتے رہے ہیں لیکن 7 ستمبر 1974 کو ذوالفقار علی بھٹو کی گورنمنٹ نے ہمیں غیر مسلم قرار دے دیا اور 1984ء میں احمدی مخالف قوانین کے اطلاق کے بعد سے اب تک ہم لوگ احتجاجاً ووٹ کاسٹ نہیں کرتے۔"اُنھوں نے مزید کہا کہ انھیں مخصوص قوانین کے ذریعے مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ووٹنگ کے عمل سے دور رہیں۔"اگر احمدی بطور غیر مسلم ووٹ ڈالتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں حضرت محمدﷺ کے ساتھ اپنی عقیدت اور تعلق کو ختم کرنا ہوگا جو کہ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔"اُنھوں نے مزید کہا کہ انتخابی اصلاحات بل میں ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو انتخابی فہرستوں میں سب کے ساتھ اندراج سے محروم کیا گیا۔ احمدیوں کی الگ فہرست شائع کرنا انہیں خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کے مطابق انتخابی فہرستیں الگ کر کے انہیں دانستہ طور پر سیاست میں حصہ لینے سے روکا جا رہا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔"حکومت کی طرف سے یہ امتیازی سلوک صرف احمدی کمیونٹی کے ساتھ ہی کیا جا رہا ہے جبکہ مسلمان، ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا اندراج مشترکہ انتحابی فہرستوں میں ہی کیا جاتا ہے۔"اُن کے بقول اگر باقی تمام مذاہب اور مسالک کے پیروکاروں کا اندراج مشترکہ انتحابی فہرستوں میں ہو سکتا ہے، تو احمدیوں کا کیوں نہیں؟ن کا مزید کہنا تھا کہ انتخابی فہرستیں مشترکہ ہونی چاہییں اور جب تک ایسا نہیں ہوتا احمدی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔"ہم اس حوالے سے متعدد بار الیکشن کمیشن سے رابطہ کر چکے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا یہ عمل ویسے کا ویسا ہی چل رہا ہے۔"انھوں نے بتایا کہ 2002 ء اور 2008 ء کے الیکشن میں بھی اُن ووٹر لسٹیں علیحدہ بنائی گئی تھی جس کی وجہ سے احتجاجاً احمدیوں نے اپنے ووٹ کاسٹ نہیں کیے تھے۔"اس کے بعد 2013ء کے عام انتخابات سے قبل ہم اس معاملے کے حل کے لیے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم سے بھی ملے انھوں نے کوئی مثبت جواب نہ دیا۔"سلیم الدین کے مطابق چناب نگر میں لگ بھگ 70 ہزار لوگ آباد ہیں جن میں 95 فی صد احمدیہ کمیونٹی سے ہونے کے باوجود بھی اُن کا کوئی سیاسی نمائندہ نہیں ہے جبکہ 5 فیصد آبادی کے حامل اُن پر حکومت کر رہے ہیں۔"95 فی صد آبادی ہونے کے باوجود بھی ہم چناب نگر میں اپنے مذہبی اجتماع نہیں کروا سکتے کیونکہ حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یہ بانیِ پاکستان قائداعظم کی طرف سے بیان کردہ پاکستان کے نظریے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ان قوانین کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے پاکستانی احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو بحال کیا جانا چاہیے۔"چناب نگر کے ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ فواد لاہور میں واقع پنجاب یونیورسٹی سے سائنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اگرچہ وہ بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں اور اپنا یہ حق استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر انتخابی فہرستیں الگ ہونے کے باعث آج تک ایسا نہیں کر پائے۔"ہمارے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اگر ہمارا نام بھی مشترکہ انتخابی فہرستوں میں درج کر دیا جائے تو میں بھی ووٹ کاسٹ کروں گا تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو میں اپنی جماعت کے مؤقف کے ساتھ کھڑا ہوں۔"