چناب نگر

سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز (سی فوٹی سیون نیوز) سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز(سی فوٹی سیون نیوز )سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز

Wednesday 24 August 2016

جناب وزیر اعلی صاحب اک نظر ادھر بھی 2016۔8۔24




اکبر آباد میں تعلیمی سرگرمیاں کیوں شروع نہ ہو سکیں؟
سات سال قبل تحصیل لالیاں کے علاقہ ٹھٹھی بالا راجہ کے نواحی گاؤں اکبر آباد میں محکمہ تعلیم کی جانب سے ساڑھے سات مرلہ پر محیط ایک پرائمری سکول کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا۔تین کمروں، برآمدہ اور بیت الخلاء پر مشتمل سکول کی عمارت مکمل ہونے پر اس میں رنگ و روغن کروانے کے ساتھ ساتھ بجلی اور پانی کا بھی انتظام کیا گیا مگر سکول میں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہ کی جا سکیں۔سیکرٹری تعلیم کی جانب سے سکول کی فائل پاس نہیں کی گئی جس کے باعث نہ تو یہاں اساتذہ تعینات ہو سکے اور نہ ہی کلاسز کا اجراء ہو سکا۔علاقہ مکین محمد ناصر کا کہنا تھا کہ گاؤں میں سکول کی عمارت ہوتے ہوئے بھی ان کے بچوں کو پڑھائی کے لیے ایک طویل فاصلہ طے کر کے نزدیکی گاؤں میں جانا پڑتا ہے جہاں سہولیات کا فقدان ہے۔"گاؤں کے بچے ٹھٹھی بالا راجہ کے سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں جو کہ چار دیواری اور فرنیچر سے بھی محروم ہے۔"وہ بتاتے ہیں کہ اہلِ علاقہ کی طرف سے محکمہ تعلیم کے دفتر میں ایک مشترکہ درخواست جمع کروائی گئی تھی کہ اس سکول کو جلد شروع کروا دیا جائے مگر اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ان کے مطابق اگر اکبر آباد کا سکول اپنا کام شروع کر دے تو ہمارے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔گیارہ سالہ محمد نواز نے بتایا کہ وہ اکبر آباد سے روزانہ چار کلومیٹر پیدل سفر کر کے ٹھٹھی بالا راجہ سکول میں پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔نواز کا کہنا تھا کہ ان کے والد شہر میں نوکری کرتے اور صبح سویرے ہی کام پر چلے جاتے ہیں اس لیے انھیں سکول تک کا سفر پیدل ہی طے کرنا پڑتا ہے مگر تاخیر سے پہنچنے پر اساتذہ انھیں کلاس سے نکال دیتے ہیں۔"عموماً ایسا ہوتا ہے کہ دیر سے پہنچنے پر کلاس سے نکال دیا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات تو سکول میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور مجبوراً واپس گھر لوٹنا پڑتا ہے۔"شاہ کالونی کے رہائشی محمد علی بتاتے ہیں کہ ان کے گھر سے اکبر آباد کا راستہ پندرہ منٹ کا ہے مگر وہاں کوئی سکول نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دو بچوں کو اکبر آباد سے بھی آگے تقریبا آدھے گھنٹے کا سفر طے کر کے ٹھٹھی بالا راجہ جانا پڑتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا سانس کا مریض ہے جس کے لیے پیدل چلنا بالکل بھی مناسب نہیں مگر سکول زیادہ دور ہونے کی وجہ سے اسے اتنی دور جانا پڑتا ہے۔ان کے بقول "صبح تو میں بچوں کو سکول چھوڑ آتا ہوں لیکن چھٹی کے وقت میری بیوی کو ٹھٹھی بالا راجہ سے بچوں کو لینے جانا پڑتا ہے اور ایسے میں اگر کہیں جانا ہو تو ہمیں مجبوراً بچوں کو سکول سے چھٹی کروانا پڑتی ہے۔"ان کا کہنا تھا کہ سکول دور ہونے کی وجہ سے بچے ہفتے میں تین روز سکول جاتے ہیں اور باقی دنوں میں کسی نہ کسی وجہ سے چھٹی کرنا پڑ جاتی ہے جس کے باعث بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اکبر آباد کے سکول کی عمارت میں علاقہ کے زمیندار نے اپنا ڈیرہ بنا رکھا ہے اگر محکمہ تعلیم اس عمارت میں کلاسز شروع کروا دے تو ان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا بھی حرج نہیں ہو گا۔ای ڈی او ایجوکیشن ریاض احمد سوہی کا کہنا تھا کہ سکول کی عمارت مکمل ہے مگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث یہاں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہیں ہو سکی ہیں جس کے متعلق حکام کو متعدد بار آگاہ کیا گیا مگر تاحال کوئی جواب نہیں ملا ہے۔انھوں نے بتایا کہ بطور سکول منظور نہ ہونے کی وجہ سے عمارت میں چوکیدار تعینات نہیں ہو سکا اس لیے انھیں زمیندار کے قبضے کی کوئی اطلاع نہیں۔تاہم ان کے مطابق اگر ایسا کچھ ہے تو قبضہ واپس واگزار کروا لیا جائے گا لیکن فی الحال سکول کو فنکشنل نہیں کیا جا سکتا۔ایم این اے غلام محمد لالی کا کہنا تھا کہ وہ حلقہ کے تمام علاقوں میں قائم سکولوں کو فعال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"اس سلسلہ میں باقاعدہ مہم کے تحت نئے بچے داخل کیے جا رہے ہیں تاکہ جن سکولوں کو بچوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے دوسرے سکولوں میں ضم کر دیا گیا ہے ان کو بھی دوبارہ سے کھولا جا سکے۔"انھوں نے بتایا کہ اکبر آباد کا سکول بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جہاں بہت جلد تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا جائے گا تاکہ اس علاقہ کے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے دور دراز کے علاقوں میں نہ جانا پڑے۔

Aaj ki khabren 24.8.2016