چناب نگر

سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز (سی فوٹی سیون نیوز) سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز(سی فوٹی سیون نیوز )سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز

Monday 26 September 2016

Aaj ki khabren 26.9.2016





چنیوٹ کے پولیس مقابلوں میں کتنی صداقت ہے؟ 26 ستمبر 2016

چنیوٹ کے پولیس مقابلوں میں کتنی صداقت ہے؟

آج صبح تھانہ صدر کے علاقہ ولانہ والا میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے دو ڈاکو ہلاک ہوگئے جن کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ ضلع چنیوٹ میں گزشتہ دو ماہ میں چار مبینہ پولیس مقابلوں کے دوران سات ڈاکو ہلاک ہو چُکے ہیں جن میں سے پولیس ریکارڈ کے مطابق چھ ڈاکوؤں کو اپنے ہی ساتھیوں کی گولیاں لگیں جبکہ ڈاکوؤں کی فائرنگ کی زد میں آ کر دو راہگیر بھی جاں بحق ہوئے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق پانچ اگست کو تھانہ رجوعہ کے پولیس ملازمین دو ملزمان کو وقوعہ کی نشاندہی کے لیے لے جا رہے تھے کہ ان کے ساتھیوں نے پولیس موبائل پر فائرنگ کی اور اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے گئے۔
تھانہ لالیاں کے علاقہ بھبھڑانہ میں ہونے والے پولیس مقابلے میں وہ دونوں اپنے ساتھیوں کی ہی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے باقی ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جن میں محسن ہرل نامی شخص بھی شامل تھا۔
اس پولیس مقابلہ کے بعد محسن ہرل نے اپنے مخالفین کے گھر حملہ کر کے ان کے دو افراد کو قتل کر دیا۔
اسی طرح گزشتہ ماہ تھانہ محمد والا میں پولیس مقابلہ کے دوران دو ڈاکو اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ پولیس نے مخبر کی اطلاع پر چک نمبر 13 میں چھاپہ مار کر محسن ہرل کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا۔
چک نمبر 140 کے رہائشی نذیر ہرل جو کہ محسن کے رشتہ دار بھی ہیں کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے مخالفین سے ساز باز کر کے جعلی پولیس مقابلہ میں ادریس وغیرہ کو قتل کیا۔  
نذیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس نے جب محسن کو گرفتار کر لیا تھا تو پھر اسے عدالت میں پیش کرتی اور قانون کے مطابق کاروائی کرواتی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس اس طرح کی کاروائیاں کر کے علاقہ میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے۔
ہمیشہ پولیس مقابلہ اس کو تصور کیا جاتا ہے جس میں کسی ایک پولیس ملازم کی شہادت ہو باقی جس میں ڈاکو یا اشتہاری ہلاک ہوں وہ پولیس مقابلہ تصور نہیں ہوتا۔ ڈی پی او
کسان بورڈ کے چیئرمین سید نورالحسن شاہ کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں چوری ڈکیتی معمول کی بات ہے جبکہ قتل وغارت کو بھی کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔
'چنیوٹ میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں پولیس کس حد تک ملوث ہے اس کا مجھے علم نہیں لیکن میں ان کاروائیوں کی حمایت ضرور کرتا ہوں۔
ان کے مطابق جرائم پیشہ افراد کو ہماری عدالتوں میں ثبوت، گواہوں کی عدم موجودگی اور دیگر مختلف عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ باہر آ کر پھر ان جرائم پیشہ کاروائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
'پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے ہر ڈاکو پر چالیس سے زائد مقدمات تھے جن میں کم سے کم مقدمہ ڈکیتی کا تھا اس لیے ایسے افراد کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔'
ینگ لائرز کے رہنما رانا عمران کا کہنا تھا کہ ڈکیتی اور دیگر وارداتوں کے اکثر ملزمان اس وجہ سے بچ جاتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف کوئی بھی گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
'عدالتوں کے ذریعے سزاؤں میں دیر اس لیے ہوتی ہے کیونکہ یہاں ہر چیز کو مکمل جانچا جاتا ہےجبکہ پولیس، مدعی اور ملزمان کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ تمام زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اصل بات تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔'
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس مقابلے قانونی طور پر غلط ہیں تاہم پولیس اپنے تحفظ کے لیے فائرنگ کرنے کا حق رکھتی ہے۔
ڈی پی او مستنصر فیروز کا کہنا ہے کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمیشہ پولیس مقابلہ اس کو تصور کیا جاتا ہے جس میں کسی ایک پولیس ملازم کی شہادت ہو باقی جس میں ڈاکو یا اشتہاری ہلاک ہوں وہ پولیس مقابلہ تصور نہیں ہوتا۔
'چنیوٹ میں ہونے والے تمام پولیس مقابلے سو فی صد درست ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والوں پر ڈکیتی، قتل، پولیس مقابلوں سمیت درجنوں مختلف مقدمات تھے جن میں وہ چنیوٹ سمیت دیگر اضلاع کو بھی مطلوب تھے۔'
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوتے تو ہمیں فخر ہوتا کیونکہ یہ ہمارے جوانوں کے لیے فخر کی بات تھی لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ان کو لگنے والی گولیوں میں یہ باث ثابت ہوتی ہے کہ وہ پولیس رائفلوں کی نہیں بلکہ ڈاکوؤں کی طرف سے استعمال کیے جانے والے اسلحہ کی ہیں۔
کیونکہ جب ڈاکو بھاگتے ہیں تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے پیچھے فائرنگ کرتے ہیں اور اس دوران پیچھے آنے والے ساتھیوں کو فائر لگنے کا سو فی صد چانس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مقابلوں سے جرائم میں کمی ہونا نہ ہونا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہم نے اس کے علاوہ بھی جرائم پر کنٹرول کرنا ہے۔
ہماری ذمہ داری ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنا ہے اب اس میں عدالت ان کو چھوڑے یا سزا دے یہ عدالت کا کام ہے۔