چناب نگر

سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز (سی فوٹی سیون نیوز) سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز(سی فوٹی سیون نیوز )سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز

Tuesday 27 September 2016

Chenab nagar ki khabar27.9.2016


چنیوٹ کے بچے تعلیم کے حق سے محروم کیوں؟ 27 ستمبر 2016

چنیوٹ کے بچے تعلیم کے حق سے محروم کیوں؟

Monday 26 September 2016

Aaj ki khabren 26.9.2016





چنیوٹ کے پولیس مقابلوں میں کتنی صداقت ہے؟ 26 ستمبر 2016

چنیوٹ کے پولیس مقابلوں میں کتنی صداقت ہے؟

آج صبح تھانہ صدر کے علاقہ ولانہ والا میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے دو ڈاکو ہلاک ہوگئے جن کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ ضلع چنیوٹ میں گزشتہ دو ماہ میں چار مبینہ پولیس مقابلوں کے دوران سات ڈاکو ہلاک ہو چُکے ہیں جن میں سے پولیس ریکارڈ کے مطابق چھ ڈاکوؤں کو اپنے ہی ساتھیوں کی گولیاں لگیں جبکہ ڈاکوؤں کی فائرنگ کی زد میں آ کر دو راہگیر بھی جاں بحق ہوئے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق پانچ اگست کو تھانہ رجوعہ کے پولیس ملازمین دو ملزمان کو وقوعہ کی نشاندہی کے لیے لے جا رہے تھے کہ ان کے ساتھیوں نے پولیس موبائل پر فائرنگ کی اور اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے گئے۔
تھانہ لالیاں کے علاقہ بھبھڑانہ میں ہونے والے پولیس مقابلے میں وہ دونوں اپنے ساتھیوں کی ہی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے باقی ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جن میں محسن ہرل نامی شخص بھی شامل تھا۔
اس پولیس مقابلہ کے بعد محسن ہرل نے اپنے مخالفین کے گھر حملہ کر کے ان کے دو افراد کو قتل کر دیا۔
اسی طرح گزشتہ ماہ تھانہ محمد والا میں پولیس مقابلہ کے دوران دو ڈاکو اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ پولیس نے مخبر کی اطلاع پر چک نمبر 13 میں چھاپہ مار کر محسن ہرل کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا۔
چک نمبر 140 کے رہائشی نذیر ہرل جو کہ محسن کے رشتہ دار بھی ہیں کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے مخالفین سے ساز باز کر کے جعلی پولیس مقابلہ میں ادریس وغیرہ کو قتل کیا۔  
نذیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس نے جب محسن کو گرفتار کر لیا تھا تو پھر اسے عدالت میں پیش کرتی اور قانون کے مطابق کاروائی کرواتی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس اس طرح کی کاروائیاں کر کے علاقہ میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے۔
ہمیشہ پولیس مقابلہ اس کو تصور کیا جاتا ہے جس میں کسی ایک پولیس ملازم کی شہادت ہو باقی جس میں ڈاکو یا اشتہاری ہلاک ہوں وہ پولیس مقابلہ تصور نہیں ہوتا۔ ڈی پی او
کسان بورڈ کے چیئرمین سید نورالحسن شاہ کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں چوری ڈکیتی معمول کی بات ہے جبکہ قتل وغارت کو بھی کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔
'چنیوٹ میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں پولیس کس حد تک ملوث ہے اس کا مجھے علم نہیں لیکن میں ان کاروائیوں کی حمایت ضرور کرتا ہوں۔
ان کے مطابق جرائم پیشہ افراد کو ہماری عدالتوں میں ثبوت، گواہوں کی عدم موجودگی اور دیگر مختلف عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ باہر آ کر پھر ان جرائم پیشہ کاروائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
'پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے ہر ڈاکو پر چالیس سے زائد مقدمات تھے جن میں کم سے کم مقدمہ ڈکیتی کا تھا اس لیے ایسے افراد کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔'
ینگ لائرز کے رہنما رانا عمران کا کہنا تھا کہ ڈکیتی اور دیگر وارداتوں کے اکثر ملزمان اس وجہ سے بچ جاتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف کوئی بھی گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
'عدالتوں کے ذریعے سزاؤں میں دیر اس لیے ہوتی ہے کیونکہ یہاں ہر چیز کو مکمل جانچا جاتا ہےجبکہ پولیس، مدعی اور ملزمان کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ تمام زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اصل بات تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔'
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس مقابلے قانونی طور پر غلط ہیں تاہم پولیس اپنے تحفظ کے لیے فائرنگ کرنے کا حق رکھتی ہے۔
ڈی پی او مستنصر فیروز کا کہنا ہے کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمیشہ پولیس مقابلہ اس کو تصور کیا جاتا ہے جس میں کسی ایک پولیس ملازم کی شہادت ہو باقی جس میں ڈاکو یا اشتہاری ہلاک ہوں وہ پولیس مقابلہ تصور نہیں ہوتا۔
'چنیوٹ میں ہونے والے تمام پولیس مقابلے سو فی صد درست ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والوں پر ڈکیتی، قتل، پولیس مقابلوں سمیت درجنوں مختلف مقدمات تھے جن میں وہ چنیوٹ سمیت دیگر اضلاع کو بھی مطلوب تھے۔'
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوتے تو ہمیں فخر ہوتا کیونکہ یہ ہمارے جوانوں کے لیے فخر کی بات تھی لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ان کو لگنے والی گولیوں میں یہ باث ثابت ہوتی ہے کہ وہ پولیس رائفلوں کی نہیں بلکہ ڈاکوؤں کی طرف سے استعمال کیے جانے والے اسلحہ کی ہیں۔
کیونکہ جب ڈاکو بھاگتے ہیں تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے پیچھے فائرنگ کرتے ہیں اور اس دوران پیچھے آنے والے ساتھیوں کو فائر لگنے کا سو فی صد چانس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مقابلوں سے جرائم میں کمی ہونا نہ ہونا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہم نے اس کے علاوہ بھی جرائم پر کنٹرول کرنا ہے۔
ہماری ذمہ داری ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنا ہے اب اس میں عدالت ان کو چھوڑے یا سزا دے یہ عدالت کا کام ہے۔

Saturday 24 September 2016

کیا سرگودھا روڈ پر بڑھتے ٹریفک حادثات روکنا ممکن ہے؟ 24 ستمبر 2016

کیا سرگودھا روڈ پر بڑھتے ٹریفک حادثات روکنا ممکن ہے؟
24 ستمبر 2016





چنیوٹ کے نواحی علاقے کانڈیوال کے رہائشی پینتالیس سالہ ناصر علی آج صبح اپنی آٹھ سالہ بیٹی کے ہمراہ کانڈیوال سے چنیوٹ آ رہے تھے کہ احمد نگر کے قریب سرگودھا سے آنے والے ڈمپر کے ساتھ ٹکرا گئے۔ٹکر سے دونوں موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ کلثوم اور ناصرہ نامی دو خواتین شدید زخمی ہوئیں جن کو ریسکیو 1122 نے ہسپتال منتقل کیا۔احمد نگر کے رہائشی کاشف احمد بتاتے ہیں کہ مین روڈ ہونے کی وجہ سے سرگودھا روڈ پر آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔'ان حادثات کی اصل وجہ ڈمپر ہیں جو کہ سرگودھا کے علاقہ 42 اڈا سے پتھر اور بجری وغیرہ لاد کر دوسرے شہروں کی طرف لے جاتے ہیں۔'یاد رہے کہ ریسکیو 1122 سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک ماہ کے دوران یہاں دس سے زائد حادثات کے نتیجے میں بیس افراد زخمی اور پانچ جاں بحق ہوئے ہیں۔کاشف کا مزید کہنا تھا کہ سیال موڑ سے آنے والی سڑک جس جگہ مین سرگودھا روڈ سے ملتی ہے اگر وہاں سپیڈ بریکر بن جائیں تو سرگودھا سے آنے والی ہیوی ٹریفک کی رفتار اس چوک پر کم ہو جائے گی اور اس سے حادثات میں بھی کمی واقع ہو گی۔اسی چوک میں اسلم ٹی سٹال کے مالک محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ایک ماہ کے دوران اس چوک میں یہ دسواں حادثہ ہے جن میں آٹھ افرد جاں بحق ہو چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کو متعدد بار یہاں کے رہائشی مذکورہ جگہ پر سپیڈ بریکر بنانے کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ان حادثات کے اصل ذمہ دار ڈمپر ڈرائیور ہیں جو اس سڑک پر انتہائی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔'اس جگہ پر اگر سپیڈ بریکر ہوں تو ان کو اپنی سپیڈ آہستہ کرنی پڑے گی جس سے حادثات میں کمی آئے گی بلکہ قیمتی جانیں بھی بچ جائیں گی۔محمد رضوان احمد نگر میں مین سرگودھا روڈ پر ٹائروں کو پنکچر لگانے کا کام کرتے ہیں۔ان کے بقول 'آج صبح ابھی میں نے دوکان کھولی ہی تھی کہ سیال موڑ کی طرف سے آنے والے موٹر سائیکل کا سرگودھا کی طرف سے آنے والے ڈمپر سے تصادم ہو گیا۔'انہوں نے بتایا کہ حادثے کے فورا بعد وہ موقع پر پہنچے تو ایک بچی اور موٹر سائیکل کا ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ دو خواتین شدید زخمی تھیں جنہیں ریسکیو اہلکار لے گئے۔محمد رضوان کے مطابق اصل ذمہ دار ڈمپر کے ڈرائیورز ہیں جو کہ ساری رات ٹرک چلانے کے بعد صبح خود سو جاتے ہیں اور اپنے ہیلپر کو ڈارئیونگ سیٹ پر بیٹھا دیتے ہیں۔'پولیس کو چاہیے کہ جن ڈرائیورز کے پاس لائیسنس نہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر کا اندراج کیا جائے تاہم ضلعی انتظامیہ کو بھی یہاں سپیڈ بریکر بنا کر حادثات میں کمی کے حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں۔'ڈی سی او چنیوٹ محمد ایوب خان بلوچ کا کہنا تھا کہ ریسکیو سے ریکارڈ طلب کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں واقعی حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے ایک ماہ کے اندر وہاں سپیڈ بریکر بنوا دیئے جائیں گے تاکہ حادثات میں کمی ہو۔ان کے مطابق روڈ پر ٹریفک پولیس کی ڈیوٹی بھی لگا دی گئی ہے تاکہ تیز رفتار ٹرک اور گاڑیوں کے چالان کیے جاسکیں۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ حادثات پر کنٹرول کرنے کے لیے مزید سختی کی جائے گی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔

Aaj ki khabren 24.9.2016





Thursday 22 September 2016

ٹیکسٹائل مل میں آتشزدگی، حقیقت کیا ہے؟ 22 ستمبر 2016



ٹیکسٹائل مل میں آتشزدگی، حقیقت کیا ہے؟
22 ستمبر 2016

فیصل آباد روڈ پر موجود شمس ٹیکسٹائل مل میں گذشتہ روز شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگ گئی جس پر ریسکیو اہلکاروں نے مسلسل پانچ گھنٹے کی کاروائی کے بعد قابو پایا۔آتشزدگی کے نتیجے میں دو مِل ملازمین اور ایک ریسکیو اہلکار زخمی ہوئے جنہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چنیوٹ میں علاج کے لیے بھیج دیا گیا۔اس آگ کے بارے میں مل ملازمین کیا سوچتے ہیں سُجاگ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔چالیس سالہ ریاض اسی مِل میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مل انتظامیہ اس مل کو ختم کرنا چاہتی ہے۔'سال 2013 میں مِل کو بند کر کے اسے تالے لگا دیے گئے تھے جس پر مزدوروں نے احتجاج بھی کیا تھا اس وقت اس مل میں ایک ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے تھے۔'انہوں نے بتایا تھا کہ مزدورں نے بھوک ہڑتال کی اور معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا گیا جہاں مالکان نے اپنی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ان کو نقصان ہو رہا ہے تاہم ان کی طرف سے مکمل ثبوتوں کے ساتھ منافع دکھایا گیا جس پر لاہور ہائی کورٹ نے مل انتظامیہ کو فی الفور مل چلانے کا حکم دیا تھا۔ان کے مطابق ہائی کورٹ کے حکم کے بعد مل کے ایک کھاتے کو چلایا گیا تاہم مختلف بہانوں سے چھ سو سے زائد مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔چنیوٹ کے رہائشی تیس سالہ مدثر گزشتہ آٹھ سال سے اس مل میں ملازمت کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سال 2013 میں جب فیکٹری کو تالے لگے تھے تب چھ ماہ تک ان کے گھر میں فاقوں کی نوبت رہی اب پھر مل میں آگ لگ گئی ہے جس کی وجہ سے ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے۔ان کے مطابق انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی تاہم انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے وہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ تین دن سے مزدوری نہیں کی اس لیے گھر کا چولہا بند پڑا ہے۔پیپلز یونین شمس مل کے صدر سید مظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ مل انتظامیہ اسے فروخت کر کے نیا کاروبار کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے اس کو خسارے میں دکھانے کے لیے حیلے بہانے کر رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت مل میں دو سو پینتیس مزدور کام کر رہے ہیں جبکہ مل کی دو شفٹیں بند کر دی گئی ہیں تاہم وہ آگ لگنے کے پیچھے چھپے حقائق کیا ہیں ان کو ابھی دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا پروڈکشن کے لحاظ سے مل پہلے سے بہتر جا رہی ہے کیونکہ پہلے فی شفٹ بیاسی بورے روئی سے سوتر تیار کیا جاتا تھا لیکن اب ایک سو پچیس بورے تیار ہو رہے ہیں لیکن انتظامیہ پھر بھی خوش نہیں ہے۔ان کے مطابق 'آگ لگنے کے بعد صرف ایک شفٹ چلائی جا رہی ہے جبکہ مختلف کھاتے بھی بند کر دیے گئے ہیں تاہم اگر انتظامیہ کی اس میں کوئی چال نظر آئی تو ہم احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے اور پھر سے عدالت کا دروازہ کٹھکھٹائیں گے۔'مل مینیجر اور لیگل ایڈوائزر چوہدری صدیق کا کہنا تھا کہ مل میں آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی تھی جس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔'ہماری لاہور اور فیصل آباد کی ٹیمیں نقصان کا اندازہ لگا رہی ہیں جس میں ابھی تک بیس لاکھ سے زائد کا نقصان نظر آ رہا ہے۔'انہوں نے بتایا کہ وہ مل کو بند نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی مزدوروں کے حقوق کو سلب کرنے کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ آئندہ تین چار روز میں یہاں مکمل طور پر دوبارہ کام شروع ہو جائے گا۔ان کے مطابق آگ لگنے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم ایک کھاتہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے جس کی مرمت کا کام شروع کروا دیا گیا ہے اور جیسے ہی اس کی مرمت مکمل ہو جائے گی وہاں بھی کام شروع ہو جائے گا۔

Aaj ki khabren 22.09.2016