چناب نگر

سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز (سی فوٹی سیون نیوز) سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز(سی فوٹی سیون نیوز )سی فوٹی سیون نیوز آپ کی آواز

Wednesday 14 September 2016


ہمیں مذہب کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے' 13 ستمبر 2016

ہمیں مذہب کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے'
     شمشاد چویدری سے
پاکستان میں احمد یوں کو 1974ء میں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا جس کے بعد سے ان پر اقلیتی قوانین نافذ ہوتے ہیں اور انھیں مسلمانوں کے مذہبی تہواروں میں شرکت سے روکا جاتا ہے۔چناب نگر کے رہائشی ساٹھ سالہ اعجاز احمد نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہر سال عید پر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی اس خوشی میں شامل ہوں اس لیے قربانی کے لیے جانور لاتے ہیں۔'ہم آزادی سے باہر ان جانوروں کے ساتھ نہیں گھوم پھر سکتے جس طرح دوسرے پاکستانی پھرتے ہیں کیونکہ ہم احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں یہاں مذہب کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ہم سے ہماری آزادی چھین لی گئی ہے۔'انہوں نے بتایا کہ وہ عیدالاضحیٰ کی خوشیاں منانا چاہتے ہیں لیکن حکومتی اور مقامی لوگوں کی وجہ سے نہیں منا سکتے تاہم ہمارے پاس نام کی آزادی ہے۔پچپن سالہ محمد اکبر چناب نگر کے رہائشی ہیں جو ایک نجی ادارہ چلا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کاروبار کے سلسلہ میں ان کا اکثر بیرون ممالک بھی جانا ہوتا ہے لیکن وہاں کسی بھی جگہ ان سے یہ سلوک نہیں کیا جاتا۔'دبئی بھی اسلامی ملک ہے لیکن وہاں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہے رہے اس لیے ہم وہاں قربانی بھی کرتے ہیں اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھاتے پیتے بھی ہیں لیکن کبھی کسی نے کوئی فرق نہیں کیا جبکہ یہاں ہم پر بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔'عیدالاضحیٰ سمیت تمام اسلامی رسومات ادا کرنے کا حق ہم سے یہ کہہ کر چھین لیا گیا کہ یہ اسلامی شعائر ہیں اور غیر مسلم قرار دیئے جانے کی وجہ سے ہم انہیں ادا نہیں کر سکتے۔' عبدالطیفانہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سال تو لاہور، ننکانہ صاحب، گوجرنوالہ اور سرگودھا میں ہماری کمیونٹی کو نماز پڑھنے سے روک دیا گیا تھا اور وہاں احمدیوں سے قربانی کے جانور بھی لے لیے گئے تھے جو عید کے بعد انھیں واپس کیے گئے۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔چناب نگر کے ہی رہائشی چالیس سالہ عبدالطیف کا کہنا تھا کہ پاکستان آزاد کراتے وقت یہ نہیں دیکھا گیا تھا کہ اس کے لیے قربانی کون دے رہا ہے۔ اس وقت لاشیں گرانے والے یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ یہ قادیانی ہے یا کوئی اور بلکہ یہ دیکھا جا رہا تھا کہ یہ پاکستان بنوانے کے خواہش مند ہیں۔'تہتر کے آئین سے قبل سب مل کر ایک ہی تھالی میں کھاتے تھے کیونکہ اس وقت تک ہمیں غیر مسلم نہیں کہا گیا تھا یہ تو بعد میں ہم پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔'ان کے مطابق 'عیدالاضحیٰ سمیت تمام اسلامی رسومات ادا کرنے کا حق ہم سے یہ کہہ کر چھین لیا گیا کہ یہ اسلامی شعائر ہیں اور غیر مسلم قرار دیئے جانے کی وجہ سے ہم انہیں ادا نہیں کر سکتے۔'وہ کہتے ہیں کہ ان کا بھی دل کرتا ہے کہ انہیں بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح کھلے عام قربانی اور نماز پڑھنے کی آزادی ہو لیکن پاکستانی قوانین راہ میں حائل ہیں۔چالیس سالہ تنویر احمد کا کہنا تھا کہ وہ سنتِ ابراہیمی عام لوگوں کی طرح ادا نہیں کر سکتے کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے ان پر سختی کی جاتی ہے جو پاکستانی قوانین کے خلاف ہے۔ستارہ بروج اکبر پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے والی پندرہ سالہ طالبہ دوبئی میں پاکستانی نوجوانوں کی سفیر کے طور پر کام کر رہی ہیں اور عید کی چھٹیاں منانے کے لیے چناب نگر آئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دبئی بھی تو اسلامی ملک ہے لیکن وہاں تمام مذاہب اور مسالک کے لوگوں کی قدر کی جاتی ہے اور کسی کو بھی بُرا بھلا نہیں کہا جاتا جبکہ پاکستان میں اقلیتوں کو ہمیشہ ہی تنگ کیا جاتا ہے۔'ہمارا ملک اسی وجہ سے ترقی نہیں کر رہا ہے کیونکہ وہ ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔'ان کے مطابق 'عیدالاضحیٰ کی خوشیاں اپنوں کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن جب ہم نے جانور قربان کر کے صرف اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھے رہنا ہے تو پھر ایسی خوشیوں کا کیا فائدہ؟'