ریسکیو 1122 کے زیر اہتمام آٹھ اکتوبر کے حوالے سے ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا جس کی قیادت ڈی سی او چنیوٹ محمد ایوب بلوچ نے کی۔ ریلی ریسکیو دفتر سے شروع ہوئی جو ڈی سی او آفس کے باہر اختتام پذیر ہوئی اور اس میں ریسکیو کی تمام گاڑیوں نے بھی حصہ لیا۔ریلی کے آغاز سے قبل آٹھ بج کر باون منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے آٹھ اکتوبر 2005 کو آنے والےزلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے خصوصی دعا کی گئی۔ڈی سی او محمد ایوب خاں بلوچ کا کہنا تھا کہ آٹھ اکتوبر کے قیامت خیز زلزلے کو گزرے آج گیارہ سال ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ اس زلزلے سے پاکستان اور آزاد کشمیر کے متعدد علاقوں میں جانی اور مالی نقصان ہوا تھا جس سے راولہ کوٹ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا جبکہ مظفر آباد میں بھی ستر فی صد عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں تاہم وہاں ایک بھی ایسا گھر نہیں جس کو اس زلزلے میں نقصان نہ پہنچا ہو۔ڈی سی او کا کہنا تھا قدرتی آفات کو روکنا تو نا ممکن ہے لیکن ان سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کے لیے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئیں۔ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر میڈم طاہرہ کا کہنا تھا کہ 2005 میں ریسکیو کا ادارہ قائم نہیں تھا اور ان آفات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ریسکیو کے ذریعے وہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے افراد کو ناگہانی آفات میں دوسروں کی مدد کے لیے تربیت کروا رہے ہیں۔'ہم نے قدرتی آفات سے بچاؤ اور مشکل میں پھنسے افراد کی مدد کے لیے سکولوں اور کالجوں میں بھی تربیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کا فائدہ سارے معاشرے کو ہوگا۔'انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ سب شہریوں کو چاہیے کہ وہ یہ تربیت ضرور حاصل کریں تاکہ کسی ناگہانی آفت میں یہ ان کے کام آ سکے۔'اگر ہم آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے کو بھول جائیں اور محض ایک آفت قرار دے کر مستقبل کے لیے کوئی حکمت عملی نہ اپنائیں تو یہ سراسر ہماری نادانی ہوگی۔'ریلی میں شریک تاجر عبدالحمید چوہدری کا کہنا تھا کہ 2005 کے زلزلے میں لگ بھگ اسی ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے تھے لیکن پاکستانی قوم ایسے تمام موقعوں پر متحد ہو کر اپنے مصیبت میں گھرے بھائیوں کی مدد کرتی ہے۔'آج کے دن ریلی نکالنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جیسے ان حالات میں ہم اکٹھے ہوتے ہیں ویسے ہی ہر وقت اکٹھے رہیں تاکہ ملک کی سلامتی کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھ سکے۔'ان کا کہنا تھا کہ مصیبت میں بھائیوں کی مدد کرنا بُری بات نہیں لیکن آفات سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا بھی انتہائی ضروری ہیں۔ان کے مطابق حکومتی اعلانات کے باوجود ابھی تک اس زلزلے سے متاثر ہونے والے کئی افراد بے سرو سامانی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آج بھی ریلیف کے منتظر ہیں۔ٹی ایم او عمران سندھو کا کہنا تھا کہ اس واک کا مقصد عوام میں ایسی آفات میں بچاؤ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔'2005 کے زلزلے میں جتنا جانی و مالی نقصان ہوا اتنا پاکستانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا لیکن ہمیں اس پر گریہ زاری کرنے کی بجائے آئندہ ایسی آفات سے بچاؤ کی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔'انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ سکول کے ہر طالبعلم کے لیے ریسکیو کی جانب سے کروائی جانے والی تربیت کا سال میں ایک مرتبہ سرٹیفکیٹ لینا ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment