چنیوٹ کے بچے تعلیم کے حق سے محروم کیوں؟
27 ستمبر 2016
مانیٹرنگ ایویلوایشن اسسٹنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع چنیوٹ کی چوالیس میں سے دس یونین کونسلز لڑکوں اور انیس لڑکیوں کے ہائی سکولوں سے محروم ہیں جبکہ تئیس یونین کونسلز میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے مڈل سکول بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان یونین کونسلوں کے رہائشی بچے پانچویں جماعت سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔یاد رہے کہ یونین کونسل نمبر پانچ، سولہ، بائیس، پچیس، چھبیس، تینتیس، چالیس اور دیگر کے رہائشی تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں۔واضح رہے کہ مانیٹرنگ کی یہ رپورٹ یونین کونسلوں کی سابقہ حد بندی کو مد نظر رکھ کے بنائی گئی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں چناب نگر اور بھوآنہ کی دو اور چنیوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں میں میونسپل کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔یاد رہے کہ حکومت پنجاب نے سکولوں میں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے اور اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ ملازمین کو مقرر کر رکھا ہے جو وقتا فوقتا مختلف سکولوں کے دورے کرتے رہتے ہیں لیکن جہاں سکول موجود ہی نہیں وہاں بہتری کیسے آئے؟یونین کونسل نمبر پانچ کے علاقہ بورالی کی رہائشی جنتاں بی بی کا کہنا تھا کہ ان کے علاقہ میں کوئی بھی سکول نہیں ہے۔سب سے نزدیک پرائمری سکول بھی علاقے سے دو کلومیٹر دور واقع ہے جہاں پڑھنے کے لیے بچیوں کو پیدل جانا پڑتا ہے جبکہ سب سے نزدیکی ہائی سکول یہاں سے نو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔'انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ موجودہ حالات میں وہ بچیوں کو اکیلے اتنی دور پڑھائی کے لیے نہیں بھیج سکتیں اس لیے حکومت چاہیے کہ وہ ان کے علاقے میں سکول قائم کرے۔کھوکھراں والا کے رہائشی احمد یار کا کہنا تھا کہ ان کی یونین کونسل میں بچوں کے لیے کوئی بھی سکول نہیں ہے۔'ایک پرائمری سکول ہے جس میں بچیاں اور بچے اکٹھے استانی کے پاس تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اگر بچے زیادہ ہو جائیں تو بچیوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں لوگ اکٹھی تعلیم کو پسند نہیں کرتے۔'انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ سکول بنائے جائیں تاکہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔یونین کونسل نمبر بیالیس کا کچھ حصہ دیہی اور کچھ شہری علاقہ پر مشتمل ہے محمد سلیم اس یونین کونسل کے رہائشی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی پوری یونین کونسل میں کہیں بھی بچیوں کے لیے پرائمری سکول نہیں ہے اس لیے علاقہ مکین اپنی بیٹیوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں۔ان کے مطابق 'جب حکومت ہمیں بنیادی سہولیات ہی فراہم نہیں کر سکتی تو پھر ایسی حکومت کا کیا فائدہ؟''منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں سے متعدد بار اس بابت کہہ چکے ہیں لیکن ہماری ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی۔'ڈی او ایجوکیشن محمد ارشاد کا کہنا تھا کہ نئے سکول منظور کروانا منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے جس کے لیے باقاعدہ فنڈز منظور ہوتے ہیں اور سٹاف کے لیے بھی منظوری لینا پڑتی ہے۔'حکومت کی طرف سے یہ پالیسی بنائی گئی ہے کہ دو کنال زمین مخیر حضرات کی طرف سے دی جائے تو اس پر سکول حکومت کی طرف سے بنایا جائے گا تاہم اس کے لیے بھی منتخب نمائندوں کی ہی مرضی شامل ہونا ضروری ہے۔'ان کے مطابق 'عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے علاقے کے منتخب نمائندوں کو کہیں کہ وہ اپنے علاقے میں تعلیم کی سہولت فراہم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔'
No comments:
Post a Comment