نون لیگ کے ناقابلِ شکست اُمیدوار الیاس چنیوٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون؟
چنیوٹ سٹی کے صوبائی حلقہ پی پی 94 (سابقہ پی پی 73) سے مجموعی طور پر 15 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں۔اس حلقے سے گزشتہ دو انتخابات میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی بطور آزاد اُمیدوار اور مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر کامیاب ہو چُکے ہیں۔ان سے قبل ان کی والد مولانا منظور چنیوٹی بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑتے اور جیتتے رہے ہیں۔ اس گھرانے کی وجہ شہرت ختم نبوت کے حوالے سے اسمبلی میں آواز اٹھانا اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوانا ہے۔ماضی میں مولانا الیاس اور اُن کے والد اسی نعرے پر مذہبی ووٹ سمیٹ کر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔آئندہ الیکشن میں بھی مولانا الیاس چنیوٹی ہی مسلم لیگ نواز کے متوقع ٹکٹ ہولڈر ہوں گے لیکن اُن کے مقابلے میں اس بار نون لیگ کے ضلعی صدر آفتاب احمد ہرل نے بھی اسی حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دئیے ہیں جو اس حلقے میں مسلم لیگ کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کا ثبوت ہے۔یاد رہے گزشتہ الیکشن میں مولانا الیاس چنیوٹی نے عوام سے چنیوٹ تا فیصل آباد روڈ کو ون وے کروانے کا انتخابی وعدہ کیا تھا مگر وہ اسے وفا نہیں کر پائے اور اسی وجہ سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ بھی ناراض رہے۔یہی وجہ تھی کہ گزشتہ مہینوں میں شہباز شریف کا دورہِ چنیوٹ مسلسل تاخیر کا شکار بھی ہوتا رہا اور جب بالآخر شہباز شریف ڈی ایچ کیو کا دورہ کرنے کے لیے چنیوٹ پہنچے تو انھوں نے آئندہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں روڈ کی تعمیر ترجیحی بنیادوں پر کروانے کا وعدہ کیا۔سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ نون اپنا ٹکٹ آفتاب ہرل کی بجائے مولانا الیاس چنیوٹی کو ہی دے گی۔پی پی 94 میں مولانا الیاس چنیوٹی کے مد مقابل قابل ذکر امیدواروں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید کلیم امیر، مسلم لیگ نواز کے ضلعی صدر آفتاب احمد ہرل اور پی ٹی آئی کے علی حسن رضا قاضی شامل ہیں۔لیکن یہاں اصل مقابلہ مولانا الیاس چنیوٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے متوقع ٹکٹ ہولڈر سید کلیم امیر کے درمیان ہوتا نظر آ رہا ہے تاہم تحریکِ انصاف کا اُمیدوار بھی کسی سے کمزور نہیں ہے۔مسلم لیگ نون کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے سے مولانا الیاس چنیوٹی کی جیت خطرے میں پڑ سکتی ہے لیکن زیادہ امکان یہی ہے وہ آفتاب اپنی جماعت کے اُمیدوار کی حمایت کریں گے۔حلقے کے لوگ چونکہ پہلے ہی فیصل آباد روڈ کے معاملے پر مولانا کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کر چکے ہیں لہذا یہ امر پیپلز پارٹی کی اُمیدوار کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے سید کلیم امیر گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت بری طرح متاثر ہونے کے باوجود غیر متوقع طور پر تقریباً ساڑھے 18 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب رہے تھے۔جبکہ تحریکِ انصاف کے اُمیدوار 2002ء میں پی پی پی کے پلیٹ فارم رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے علاوہ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں بھی مولانا الیاس چنیوٹی کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر آتے رہے ہیں۔کلیم امیر پی پی پی کے ڈویژنل صدر و سابق ایم پی اے سید حسن مرتضٰی کے گہرے دوست بھی ہیں لہذا انہیں حسن مرتضٰی کی حمایت بھی حاصل ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے باعث حسن مرتضٰی کے حلقے کے جو علاقے اب شہری حلقے میں شامل ہوئے ہیں وہاں سے سید کلیم امیر بھاری اکثریت میں ووٹ لے سکتے ہیں۔دوسری جانب فرنیچر کے کاروبار سے منسلک فخری خاندان (جمیل فخری اور انس فخری) نے بھی الیکشن میں شمولیت کا اعلان کر رکھا ہے اور مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تاہم اس خاندان کو ٹکٹ ملنے اور ان کی جیت کے امکانات بہت کم ہیں۔سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ صورتحال میں کسی بھی اُمیدوار کی جیت کے بارے میں کوئی حتمی پیشن گوئی کرنا قبل از وقت ہو گا تاہم یہ بات طے پے کہ اس مرتبہ مولانا الیاس کو کامیابی کے لیے ماضی کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنا ہوگی۔